جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ بچ??ں کے مقدمات کے لیے ملک میں چلڈرن کورٹس کی ضرورت ہے۔
بچ??ں کے انصاف سے متعلق تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ بچ??ں کے حقوق کا عدلیہ کو احساس ہے۔ بچے نہ صرف ہمارا مستقبل ہیں بلکہ ہمارا حال بھی ہیں۔ بچے کل کے لوگ نہیں بلکہ آج کے افراد ہیں۔ بچے اللہ کا تحفہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ماتحت عدلیہ کے ججز کو بتانا چاہتا ہ??ں کہ بچ??ں کے لیے انصاف کس قدر اہم ہے۔ ؎مفاد عامہ کے مقدمات سے کافی بہتری آتی ہے۔ میں ہمیشہ کہتا ہوں عدالت آئیں۔ میں اگرچہ آئینی بینچ میں نہیں مگر ہم آپ کو کو سنیں گے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہماری عدالت میں بچہ پیش ہوتا ہے تو ان کو بات کا موقع نہیں دیتے۔ ہم کیسز میں بچ??ں کے والدین کو سن لیتے ہیں۔ آئندہ سے بچہ عدالت میں پیش ہو تو بچے کی بات کو سنیں۔
جسٹس منصور کا کہنا تھا کہ عدلیہ کو بچ??ں کو بھی فیصلہ سازی کے عمل شامل کرنا چاہیے۔ عدلیہ کو بچ??ں کے حقوق کو تحفظ کرنا چاہیے۔ طوطا چوری ہو بچہ جیل میں بیٹھا ہے۔ بچ??ں کو عدالتی نظام سے مت گزاریں۔ بچے کو بھی کیس سے گزرنے سے 15 سے 20 سال نہ لگ جائیں۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں چلڈرن کورٹس بنانے کی ضرورت ہے۔ چلڈرن کورٹس میں بچوں سے متعلقہ کیسز کے جلد فیصلے ہوں۔ دیکھنا ہے ہمارا نظام انصاف بچ??ں کے لیے کیا کر رہا ہے۔ بچ??ں کو بھی آزادی رائے کا حق ہے۔ بچے ہمارے لیے ہم سے زیادہ اہم ہونے چاہییں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ بچ??ں کو آج سائبر بُلنگ جیسے خطرات کا سامنا ہے۔ ملک میں 25 ملین سے زیادہ بچے اسکول نہیں جا رہے۔ اسپیشل چائلڈ سے متعلق ہمارے پا?? سہولیات موجود نہیں۔ بچی??ں کو ونی کرنے جیسی رسومات آج تک موجود ہیں۔ اس سب پر ہمیں شرم آنی چاہیے۔ جبری مذہب کی تبدیلی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اسکول میں بچ??ں کو مارنے پیٹنے کا رجحان آج بھی موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ بچوں سے متعلق آئین کے آرٹیکل 11 تین کی تشریح کی ضرورت ہے۔ میں اب یہ تشریح کر نہیں سکتا، آپ کر سکتے ہیں۔ آئی ایم سوری، مجھے یہ بار بار کہنا پڑ رہا ہے۔